ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / ساحلی خبریں / نہتے عوام کے سامنے مسلح فوج چند گھنٹوں سے زیادہ نہیں ٹھہر سکی ، ترکی سڑکیں میدان جنگ میں بدل گئیں

نہتے عوام کے سامنے مسلح فوج چند گھنٹوں سے زیادہ نہیں ٹھہر سکی ، ترکی سڑکیں میدان جنگ میں بدل گئیں

Sun, 17 Jul 2016 11:24:07  SO Admin   S.O. News Service

فوجی بغاوت کے بعد کرفیو اور مارشل لاء کا اعلان بھی عوام کو خوفزدہ نہیں کرسکا ، کئی مقامات پر عوام کے برہمی کا شکار فوجیوں کو بچانے کیلئے پولیس کو مداخلت کرنی پڑی 

انقرہ 16؍ جولائی (ایجنسیاں) سنیچر کی صبح 8بجے بھی استنبول کے باسفور پُل پر فوجی ٹینک کھڑے تھے مگر منظر بدلا ہوا تھا ۔ یہ ٹینک تارکول کی اس سڑک پر کھڑے تھے جو استنبول کے اس حصے کو جو ایشیا میں واقع ہے یورپی حصے سے جوڑتا ہے۔ ان ٹینکوں کے دہانے شہر کے مختلف حصوں کی طرف تھے اور یہ مقامی وقت کے مطابق جمعہ کی شام 9؍ بجے سے یہاں کھڑے تھے۔ یہاں ان ٹینکوں اور فوجی ٹرکوں کے اچانک نمودار ہونے کے بعد ہی فوجی بغاوت کے آثار ظاہر ہوگئے تھے ۔
مگر 11گھنٹوں بعد بہت کچھ بدل چکا ہے۔ ٹینک تو کھڑے ہیں مگر ان پر اور ان کی نگرانی پر تعینات فوجی بھاگ چکے ہیں۔ ان کی جگہ بغاوت مخالفت مظاہرین نے لے لی ہے جو صدر رجب طیب اردگان کی اپیل پر نہ صرف گھروں سے باہر نکلے بلکہ انہوں نے فوجیوں سے دودو ہاتھ کر کے انہیں پسپا ہونے پر مجبور کردیا ۔ وہ ٹینک جو فوجی بغاوت کے آغاز کا اشارہ کررہے تھے، اب اس کے انجام کو پہنچنے کی حقیقت بیان کررہے ہیں۔ ’’ اس (فوجی بغاوت ) پر قابو پا لیا گیا۔ ‘‘ 34؍ سالہ پوسٹ میں یلدیرے دندار نے راحت کی سانس لیتے ہوئے کہا ۔ ان کے مطابق وہ رات بھر آزادی اسکوائر پر خیمہ زن اور بغاوت کی کوشش کے خلاف سراپا احتجاج رہے ۔ ان کے مطابق ’’ اللہ کا شکر ہے کہ وہ اب ختم ہوگیا۔‘‘
اب ان فوجی ٹینکوں پر جو حکومت کا تختہ پلٹنے کیلئے یہاں تعینات کئے گئے تھے ، جمہوری حکومت کے وفا دار پولیس اہلکار بیٹھے ہوئے ہیں اور منتظر ہیں کہ کب ہیوی ڈیوٹی ٹرک آئیں اور ان ٹینکوں کو یہاں سے ہٹایا جائے ۔ اس خبر کے لکھے جانے سے ایک گھنٹہ قبل ہی فوجیوں نے ہاتھ اٹھا کر خود سپردگری کی تھی ۔ یہ اس فوج کے لئے یقیناًشرمناک ہے جس نے تختہ پلٹنے کی کوشش کی۔ عوام نے انہیں مسترد کردیا اور حکومت کے دفاع میں سڑکوں پر اتر آئے ۔ جب و فادار فورسیز نے بغاوت کو کچل دیا تو پھر سیکولر اپوزیشن لیڈر بھی اپنی کمیں گاہوں سے باہر نکلے ۔ انہوں نے اردگان کی حمایت کا اعلان کیا ۔ اس درمیان بغاوت کے خلاف سڑکوں پر اترنے والی بھیڑ ترک صدر کی مقبولیت کی غماز بھی تھی۔ بغاوت کو ناکام بنائے جانے کے بعد باسفورس پُل کا منظر دید نی تھا۔ بغاوت مخالف مظاہرین یہاں تعینات فوجی ٹینکوں پر کھڑے ہو کر قومی پرچم لہرارہے تھے اور باغیوں کے خلاف نعرے بازی کررہے تھے ۔ کاروں اور دو پہیا گاڑیوں کے سوار یہاں سے گزرتے ہوئے ہارن بجا کر اپنی خوشی کا اظہار کررہے تھے ۔ بغاوت کے کچلے جانے کے بعد عام ترکی شہریوں میں تفخر کا احساس بھی نظر آیا۔ ایک خاتون نے چیخ کر کہا کہ ’’انگریز کبھی ایسا نہ کر پاتے مگر ہم نے کردکھا یا ۔ ہم ترک ہیں۔ ‘‘
فوجی بغاوت کے خلاف عوامی غصہ قابل دیدتھا۔ لوگ ٹینکوں پر اینٹیں اور پتھر بر سارہے تھے۔ ٹینکوں کی پیش قدمی روکنے کیلئے عوام نوجوان ان کے سامنے لیٹ گئے اور فوجی حکام کو چیلنج کیا کہ اگر ان میں ہمت ہے تو ٹینک ان کے اوپر سے لے جایا جائے ۔ سی این این کی رپورٹ کے مطابق ترکی کی سڑکیں میدان جنگ کا منظر پیش کررہی تھیں۔ ایک طرف پارلیمنٹ کی عمارت پر بم پھٹ رہے تھے تو دوسری طرف سڑکوں پر عوام اپنی جان ہتھیلی پر لے کر باغی فوجیوں سے لوہا لے رہے تھے ۔ 
نہتے عوام جن کے ہاتھوں میں سیل فون کے علاوہ کچھ نہیں تھا، نے فوج ٹینکوں اور فوجی قافلوں کا اس جواں مردی سے مظاہرہ کیا کہ ان کے پسینے چھوٹ گئے۔ حد تو یہ ہے کہ آزادی اسکوائر پر عوام کے عتاب سے فوجیوں کو محفوظ رکھنے کیلئے پولیس فورس کو مداخلت کرنی پڑی اور وہ فوجیوں کو گرفتار کر کے بحفاظت لے جانے کی کوشش کرتے نظر آرہے ۔ ترکی میں بغاوت کو جس طرح سے ناکام بنایا گیا ہے وہ یقیناًتاریخ کا حصہ بن چکا ہے جس کا حوالہ طویل عرصے تک دیا جاتارہے گا۔ 
(بشکریہ : گارجین ، سی این این اور دی ٹیلی گراف)


Share: